بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر لیڈر و سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا
کی سربراہی والے پانچ رکنی وفد کی سری نگر آمد کے باوجود کشمیر کی مجموعی
صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جہاں علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پرہڑتال
کے باعث معمولات زندگی جمعرات کو مسلسل 111 ویں روز بھی مفلوج رہے۔ مذکورہ وفد نے یہاں حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی
گیلانی و میرواعظ مولوی عمر فاروق کے علاوہ متعدد دیگر علیحدگی پسند
رہنماؤں اور تجارتی انجمنوں کے اراکین کے ساتھ ملاقات کی۔ وادی میں 8
جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے ساتھ شروع ہوئی
آزادی حامی احتجاجی مظاہروں کی لہر کے دوران کم از کم 90 عام شہری ہلاک
جبکہ 15 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ جمعرات کو اگرچہ وادی کے کسی بھی حصے میں کرفیو نہیں
رہا، تاہم وسطی کشمیر کے گاندربل اور جنوبی کشمیر کے پلوامہ قصبوں میں تشدد
کے واقعات کو روکنے کے لئے پابندیاں نافذ رہیں۔ پولیس نے بتایا کہ وادی کے
تمام حصوں بشمول
گرمائی دارالحکومت سری نگر میں امن وامان کی بحالی کے لئے
سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے۔
پولیس دعوے کے برخلاف پائین شہر کے مختلف علاقوں کی صورتحال بالکل مختلف
نظر آئی جہاں سیکورٹی فورسز نے مختلف سڑکوں کو خاردار تار سے بند رکھا ہے۔ وادی میں ہڑتال کے باعث دکانیں اور تجارتی مراکز مسلسل 111 ویں روز بھی بند
رہے جبکہ تعلیمی ادارے بدستور بند پڑے ہوئے ہیں۔ تاہم گذشتہ دو ہفتوں کے
مقابلے میں جمعرات کو سڑکوں پر بہت ہی کم نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف)
نے بدھ کو اپنے تازہ احتجاجی کلینڈر میں وادی میں جاری ہڑتال میں 3 نومبر
تک توسیع کا اعلان کیا۔ 69 سال قبل آج ہی کے دن جموں وکشمیر کے اُس وقت کے
حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے
کے بعد سری نگر میں ہندوستانی فوج اتارنے کے خلاف علیحدگی پسند قیادت نے آج
کشمیری عوام کو سیاہ پرچم لہرانے کے لئے کہا تھا۔